حوزہ نیوز ایجنسی | انسانی تاریخ نے بہت سی جنگیں، نسل کشی اور جرائم دیکھے ہیں لیکن صرف ایک تاریخی واقعہ ہے جسے ایک ممنوعہ علاقہ سمجھا جاتا ہے اور کسی محقق کو اس کے بارے میں دستاویزات کی تحقیق کرنے، رائے کا اظہار کرنے اور تاریخی حقائق کے اظہار کی اجازت نہیں ہے اور اسے پوری طاقت کے ساتھ نمٹا جاتا ہے۔ اور ان ممالک سے جو خود کو آزادی کا گہوارہ اور علامت سمجھتے ہیں۔ یہ بات دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی قتل سے متعلق ہے۔ یقینا، اس جنگ کے تمام چالیس ملین مرنے والوں سے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق صرف یہودیوں مرنے والوں متعلق ہے!
حقیقت یہ ہے کہ ہولوکاسٹ کا افسانہ، اسرائیلی ریاست کے وجودی فلسفے اور بین الاقوامی صہیونیت اور مغربی حکومتوں کے اہم مفادات سے جڑا ہوا ہے اور اسی لیے اسے مغرب کا ایک ممنوعہ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔
اس قانون کی بنیاد پر جو 1980 کی دہائی کے اوائل میں بین الاقوامی صہیونی ایجنسی کے کچھ اراکین نے مشہور فرانسیسی پاپ رینے سیموئیل سپراٹ کی نگرانی میں تیار کیا گیا اور جولائی 1990 فرانس میں اس کی منظوری دی گئی، جس کے تحت "ہولوکاسٹ" کے بارے میں کسی بھی قسم کے شک کو جرم سمجھا گیا اور فرانس میں جو کوئی بھی ہولوکاسٹ پر شک کرے گا اسے ایک ماہ سے ایک سال تک قید اور 2,000 سے 300,000 فرانک جرمانہ مقرر کیا گیا۔
بعد میں امریکہ، انگلستان، فرانس اور صیہونی ایجنسی کے دباؤ سے یہ قانون یورپ کے بیشتر ممالک میں بھی منظور کر لیا گیا۔ آج مبینہ ہولوکاسٹ اور اس کے جہتوں اور اجزاء کے بارے میں کسی بھی قسم کا شک یورپ میں جرم سمجھا جاتا ہے!
آخر صیہونی حکومت کی کوششوں سے اس افسانے نے ایک عالمی پہلو اختیار کر لیا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعہ 27 جنوری کو Holocaust day کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اس تاریخی افسانے کے بارے میں رہبر معظم سید علی خامنہ ای مدّظلہ العالی فرماتے ہیں : "شروع سے ہی صیہونیوں نے پروپیگنڈہ کا طریقہ اختیار کیا اور مظلوم نمایی کرناشروع کی۔ مظلوم نمائی کو دکھانے کے لیے بہت سی کہانیاں اور افسانے گھڑے گئے۔ خبریں بنیں اور انتھک کوششیں کی گئیں"۔
انہوں نے یہودیوں کی نفسیاتی پریشانی کا معاملہ اٹھایا اور کہا کہ چونکہ یہودی کئی صدیوں سے دباؤ میں تھے اس لیے وہ نفسیاتی طور پر پریشان ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نفسیاتی تحفظ کی ضرورت ہے۔!
تمام سیاستدانوں، صحافیوں، دانشوروں اور مغرب کے خواص کو یهودی مرنے والوں کی یاد میں تعمیر یادگار کے سامنے جھکنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کوئی ایسی کہانی پر زور دے جس کی صداقت ہی معلوم نہیں اور اپنے آپ کو اس کہانی کا مقروض سمجھے۔ یہ وہ طریقے ہیں جس کے وہ پرچار کرتے رہیں اور ان سب کا مقصد مظلوم نمایی کرنی تھیں"
ہولوکاسٹ کے بارے میں متعدد سوالات، جواب کے منتظر ہیں اور کھبی بھی جواب ملنا محال ہے مثلاً:
کیا ہولوکاسٹ کوئی حقیقت ہے ؟
اگر ہولوکاسٹ حقیقت پر مبنی ہے تو اس کے بارے میں تحقیق کرنے کیوں نہیں دیتے؟
اگر ہولوکاسٹ حقیقت پر مبنی ہو بھی تو اس کا خمیازہ کیوں مسلمان بھگت رہے ہیں ؟
ہولوکاسٹ کے بانی و مبانی مغرب ہیں تو ان سے کیوں جواب طلبی نہیں ہوتی ہیں؟
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ ایک کھیل تھا جو صہیونی ریاست کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنے کے ساتھ ان کو اسی جگہ پر بیٹھائے گئے ہیں جو تین براعظموں کے سنگم ہیں اس ناجائز ریاست کے قیام کے بعد سے اب تک کیا کیا جنایتوں کے مرتکب ہوئے ہیں سب کے سامنے ہے ایک افسانہ کو حقیقت کا روپ دھار کر مغرب اور صہینوں نے عالم اسلام کو تاراج کرکے یہاں کے زرخیز قدرتی وسائل پر قبضہ جمانے کے لیے متعدد ہٹکنڈے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں اقتصادی ناکہ بندی،جنگ، دہشتگردی، سیاسی دباؤ، مقدسات کی اہانت، مذہبی منافرت اور میڈیا وار۔۔۔ وغیرہ کے زریعے اپنی مذموم مقاصد کو آگے بڑھا رہے ہیں مغرب کے اسلامی مقدسات کی توہین تسلسل کے ساتھ جاری ہے اسلام دشمنی کی نئی لہر میں اسٹاک ہوم میں ایک اسلامی ملک ترکی کے سفارت خانے کے سامنے قرآن پاک کو نذر آتش کیا گیا۔ اس کارروائی کی اجازت سویڈن کی حکومت اور پولیس نے دی ہے "آزادی اظہار" کی آڑ میں اسے جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ آزادی اظہار کا مطلب نہ صرف دوسروں کی رائے کی توہین کرنا نہیں ہے بلکہ اس طرح کے اقدامات عین آزادی کے خلاف ہیں۔
یہ اشتعال انگیز کارروائی انتہائی دائیں بازو کی ڈنمارک کی جماعت "سٹرام کورس" کے اسلام مخالف رہنما "Rasmus Paludan" نے کی ہے۔
مغرب میں اسلام مخالفت اور توہین کی یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مغربی ممالک بالخصوص سویڈن میں اسلام اور اس کی مقدسات کی توہین کی گئی ہو۔ اس سے پہلے 1988 میں کتاب "آیات شیطانی" کے نام سے ایک کتاب ملعون زمانہ سلمان رشدی نے لکھی تھی، جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید احتجاج ہوا اور امام خمینی ( رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے اس کے ارتداد کا حکم دیا۔
پھر 2004 میں تھیوڈور وان گوگ صحافی اور فلم ساز نے اپنی’’سرنڈر‘‘ نامی فلم میں اسلام اور مسلمانوں کے تصورات کی توہین کی تھی۔
2005 میں تھیوڈور وین گوگ مقامی اخبار میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک خاکہ شائع کیا۔
11 ستمبر 2010 کو ایک امریکی پادری "ٹیری جونز" نے قرآن مجید کے تقریباً 3000 نسخوں کو نذر آتش کرنے کا منصوبہ بنایا، لیکن وہ شدیداحتجاج کے باعث ایسا کرنے میں ناکام رہے۔
2011 میں، جونز نے فلوریڈا کے ایک چرچ میں قرآن پاک کے ایک نسخے کو آگ لگا دی اور اس کی تصاویر شائع کیں۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں اور حتیٰ کہ غیر مسلموں کی طرف سے شدید ردعمل ہوا
2015 میں فرانسیسی میگزین "چارلی ہیبڈو" نے ایک کارٹون شائع کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تھی۔ اور فرانس میں کچھ لوگوں نے چارلی ہیبڈو کے دفتر پر حملہ کیا، اسی سال، فرانسیسی مظاہرین نے ایک نماز ہال پر حملہ کیا اور نماز ہال کو تباہ کرنے کے بعد، قرآن کو جلا دیا
جب تک مسلمانوں کی غیرت نہیں جاکتی اہانتوں کا تسلسل برقرار رہے گا جہاں اصل اسلام خطرے میں ہے وہاں مسلمان رات کی تاریکی میں بل پاس کرواتا ہے کہ صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کے شان میں توہین نہ ہو اگر کسی کو اسلام کے ساتھ محبت ہے تو پہلے اساس اسلام کو بچانے کی کوشش کریں ہمارے اس قسم کے ناسنجیدہ حرکتوں کی وجہ سے دشمن کو جرأت ملتی ہے کہ کھلے عام آزادیٔ بیان کے بہانے کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری کرنا آج کی ترقی یافتہ تہذیب کا حصہ ہے۔
اب بھی جاگو مسلمانو! کل بہت دور ہے۔
از خواب گران خواب گران خواب گران خیز